انتخابات 8 فروری کو ہوں گے‘ غیر یقینی کی بات کرنے والا توہین عدالت کا مرتکب ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ
نئے انتخابات سر پر ہیں‘ بے یقینی والی بات دوبارہ نہیں کرنی۔ میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، غیر یقینی کی بات کرنے والا توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ملک میں اس وقت بے یقینی کی صورتحال ہے‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ بے یقینی والی بات دوبارہ نہیں کرنی، انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے، غیر یقینی کی بات کرنے والا توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے‘؟ اس پر وکیل درخواست گزار ثاقب جیلانی نے کہا کہ ’موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا‘، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ ’میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا‘؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ’میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007ء میں نااہل کیا گیا، ہائیکورٹ نے 2018ء کے انتخابات میں میر بادشاہ کو لڑنے کی اجازت دے دی، میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا‘۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے‘، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے‘؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ’جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیئے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا‘۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ’سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں،نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی‘؟ اس پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ’قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی پانچ سال کی ہوگی‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟۔
اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ ’حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے‘، اس کے جواب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر موثر ہو چکا، الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے، انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر انحصار کرنا ہے‘۔
Comments
Post a Comment